Saturday, December 13, 2008

Dastoor


دستور

 

دیپ جس کے محلات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو ساۓ میں ہر مصلحت کے پلے

 

ایسے دستور کو صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

 

میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے

میں بھی منصور ہوں، کہ دو اغیار سے

کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے

 

ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

 

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے، تم کہو

جام رندوں کو ملنے لگے، تم کہو

چاک سینوں کے سلنے لگے، تم کہو

 

اس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

 

تم نے لوٹا ہے صدیون ہمادم سکوں

اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں

چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں

 

تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر

‎ میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

No comments: