Saturday, June 20, 2009

ناراضگی


میں کسی فرد یا نسل سے ناراض نہیں ہوں۔
میں اس نظام سے ناراض ہوں جس میں 1947 کے بعد سے لے کر اب تک سادہ لوح عوام کو بےوقوف بنایا جا رہا ہے۔ یہ نظام جب تک نہیں بدلے گا تب تک میری ناراضگی جاری رہے گی۔ میرے ہاتھ پیر دل دماغ میں جتنا بھی زور ہے اس کی مدد سے میں اس نظام کو بدلنے کی جد و جہد کرتا رہوں گا۔
حبیب جالب

Mera Jawaab


اشکوں کے جگنوٓوں سے اندھیرا نہ جائے گا
شب کا حصار توڑ کر کوئی آفتاب لا
ہر عہد میں رہا ہوں میں لوگوں کے درمیاں
میری مثال دے کوئی میرا جواب لا

Tuesday, December 16, 2008

عصا اٹھائو


نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سےجائے گا
عصا اٹھائو کہ فرعون اسی سے جائے گا

عہد کم نگاہی میں


ہم سے اس عہد کم نگاہی میں
کون سا جور ناروا نہ ہوا
اب تو ہم خاک ہو چکے جالب
اب ہمارا کوئی ہوا نہ ہوا

Saturday, December 13, 2008

خوا تین کے جلوس میں


حبیب جالب

خواتین کے جلوس پر لاٹھی چارج میں پٹ جانے کے بعد


بڑے بنے تھے جالب صاحب، پٹے سڑک کے بیچ

گولی کھا‏ئی، لاٹھی کھائی، گرے سڑک کے بیچ

کبھی گریباں چاک ہوا اور کبھی ہوا دل خون

ہمیں تو یوں ہی ملے سخن کے صلے سڑک کے بیچ

جسم پہ جو زخموں کے نشاں ہیں، اپنے تمغے ہیں

ملی ہے ایسی داد وفا کی، کسے سڑک کے بیچ

Mumtaaz

ایک دفعہ امریکا سے ایک ڈیلیگیشن پاکستان آیا تو اس وقت کے حکمرانوں کا، مشہور گلوکارہ ممتاز کو حکم ہوا کہ ان کے استقبال میں کچھ پیش کریں۔ لیکن ممتاز نے ان امریکیوں کے سامنے کچھ بھی پیش کرنے سے منع کردیا۔ پھر تو مظالم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے بیچاری ممتاز کے اوپر۔ انہیں بار بار لاڑکانے (لڑکانہ) کے تھانے بلا بلا کر پریشان کیا جانے لگا۔ اس کے احتجاج میں فنکاروں کا ایک جلوس بھی نکلا۔ لیکن ممتاز کو پریشان کیا جانا کم نہیں ہوا۔ اسی موقعے سے حبیب جالب نے احتجاجا ایک نظم کہ ڈالی اور سڑکوں پر گھوم گھوم کر لوگوں کو سنانے لگے۔ نظم یوں ہے-:

ممتاز

قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا، لاڑکانے چلو

ورنہ تھانے چلو!

اپنے ہونٹوں سے خوشبو لٹانے چلو، گیت گانے چلو

ورنہ تھانے چلو!

حاکموں کو بہت تم پسند آ‏ئی ہو، ذہن پر چھائی ہو

اپنے جلووں سے محفل سجانے چلو، مسکرانے چلو

ورنہ تھانے چلو!

منتظر ہیں تمہارے سپاہی وہاں، کیف کا ہے سماں

جسم کی لو سے شمعیں جلانے چلو، غم بھلانے چلو

ورنہ تھانے چلو!

Dastoor


دستور

 

دیپ جس کے محلات ہی میں جلے

چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے

وہ جو ساۓ میں ہر مصلحت کے پلے

 

ایسے دستور کو صبح بے نور کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

 

میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے

میں بھی منصور ہوں، کہ دو اغیار سے

کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے

 

ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

 

پھول شاخوں پہ کھلنے لگے، تم کہو

جام رندوں کو ملنے لگے، تم کہو

چاک سینوں کے سلنے لگے، تم کہو

 

اس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

 

تم نے لوٹا ہے صدیون ہمادم سکوں

اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں

چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں

 

تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر

‎ میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا